House No. 604, Main Double Road, National Police Foundation, E-11/4, Islamabad. Ph: 051-2375005
پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین
پاکستان پیپلزپارٹی کو بائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا ہے جو اس وقت پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔پیپلزپارٹی کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967 کو رکھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے 1970 کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے واضح اکثریت حاصل کی جبکہ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمان کی پارٹی عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی، جہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کا نعرہ روٹی ،کپڑا اور مکان بہت مقبول ہوا تھا۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مشکل صورت حال میں پاکستان پیپلزپارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔1977 میں فوج نےایک بار پھراقتدار پر قبضہ کرلیا اور اس وقت کے مقبول ترین لیڈر زوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جس کو بعد میں بنیاد بنا کر پاکستان پیپلز پارٹی کے اس وقت کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وفات کی بعد پارٹی کی باگ ڈور ان کی بیٹی بےنظیر بھٹو نے سنبھالی۔ بارہ سال کے طویل عرصے کےبعد 1988 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی ملک کی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور بےنظیر بھٹوپاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں۔ بے نظیربھٹو کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم تھیں۔1988 میں پیپلزپارٹی کی کمزور حکومت پراس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کے الزامات لگاکر اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرکے اسمبلی کو تحلیل کردیا۔1990 میں پاکستان پیپلزپارٹی نے تین مزید جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے پیپلزڈیموکریٹک الائنس کے جھنڈے تلے انتخابات میں حصہ لیا اور44 نشستیں حاصل کی۔ اوران کے مدمقابل اسلامی جمہوری اتحاد نے106 نشتیں حاصل کرکے کامیابی حاصل کی اور ملک میں اپنی حکومت بنائی۔
پاکستان پیپلزپارٹی 1993 کی عام انتخابات میں دوبارہ اقتدار میں آئی اس دفعہ پیپلزپارٹی نے جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمان) کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنائی۔ اسی دوران پاکستان پپیلزپارٹی مختلف گروہوں میں بٹ گئ جس میں بھٹوازم، پارلیمنٹیرینز اور شیرپاؤ شامل تھے۔پارٹی کی اندرونی چپقلش اوربےنظیر بھٹو کے بھائی مرتضی بھٹو کے درمیان حکمت عملی پر اختلافات کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1996 میں مرتضی بھٹو کو قتل کردیا گیا۔ ان مشکل حالات میں پارٹی بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور پارٹی کے اپنے لگائے ہوئے صدر پاکستان فاروق لغاری نے ستمبر 1996 میں پیپلزپارٹی کی حکومت پربدعنوانی اور کرپشن کےالزامات لگائے گئےجس کی بنا پر ایک مرتبہ پھراسمبلی توڑدی۔
1997 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی اور قومی اسمبلی کی صرف 18 نشتیں حاصل کرسکی۔ 1997سے لیکر1999 تک پیپلزپارٹی نے اپوزیشن کا کردارادا کیا۔
اکتوبر1999 میں جنرل مشرف کی طرف سے مارشل لا ء کے نفاذ کےبعد بے نظیربھٹو خود ساختہ جلاوطنی پر چلی گئیں۔
دسمبر2002 میں بے نظیر ، نواز شریف اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے سربراہان نے مل کر لندن میں الائنس آف رسٹوریشن آف ڈیموکریسی(اے آر ڈی) کی بنیاد رکھی۔ اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کے حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کااعلان کیا۔
2002 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نےآمر کی موجودگی میں اچھی کارکردگی مظاہرہ کیااورقومی اسمبلی کی81 نشتیں حاصل کی۔ بے نظیر کی ملک میں غیر موجودگی کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان کو پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے مشترکہ اپوزیشن لیڈمنتخب کیا گیا۔
مئی 2006 میں لندن میں نوازشریف اور بےنظیر کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط کرکےجمہوریت کو بحال کرنے ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔
اکتوبر2007 کو پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیربھٹو واپس وطن پہنچی۔ کراچی ائیرپورٹ پر ان کا فقیدالامثال استقبال کیا گیا۔بے نظیربھٹو کا قافلہ شاہراہ فیصل پر مزار قائد کی جانب بڑھ رہاتھاکہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں سو سے زائد افراد موت کی نیند سوگئے۔ خوش قسمتی سے پیپلزپارٹی کی چیئرمین اس حملہ میں محفوظ رہیں۔
27دسمبر2007 کوجب پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں واپس جا رہی تھیں کہ ان پر نامعلوم افرادنے فائرنگ کردی اورکچھ فاصلے پر ایک ذور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئی۔ یہ ملکی تاریخ کا بہت بڑا المیہ تھا۔ جس نے پیپلزپارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس افسوسناک واقع کے بعد آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی سنبھالی۔ بے نظیر بھٹوکی شہادت کی وجہ سے الیکشن ایک ماہ تاخیر کا شکار ہوئے اور بعد ازاں 18 فروری 2008کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔جن میں پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کی 91 نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ جس کے بعد مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی۔
2008 کے عام انتخابات میں کامیابی کی وجہ سے آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ اس دور میں کسانوں کے لیے کئی پیکجز کا اعلان کیا گیا۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ سی پیک کے معاہدے بھی آصف علی زرداری نے ہی کیے تھے ۔تاہم 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی صرف صوبہ سندھ میں ہی کا میابی حاصل کر پائی۔ پورے پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 34 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ 2013 سے 2018 تک قومی اسمبلی میں خورشید شاہ،پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے قائدحزب اختلاف کے فرائص سرانجام دیتے رہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی موجودہ دور حکومت ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکا ہے۔ لیکن اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس کی بحالی میں سرگرم عمل ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار پورے پاکستان سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
2018 کے سینیٹ انتخابات میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا تعلق بھی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
ایک زرداری سب پہ بھاری۔ پاکستان کے منجھے ہوئے سیاستدان آصف علی زرداری کے لئے یہ جملہ بولا جاتاہے جو پاکستان کی سیاست میں مفاہمتی سیاست کے بادشاہ مانے جاتےہیں پاکستان میں پیپلز پارٹی کے علاوہ جب جب سیاست پر برا وقت آیا تو آصف علی زرداری کو یاد کیا گیا انھوں نے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایسے چلایا کہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل خراب نہ ہو پائے آصف علی زرداری سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں وہ قومی اسمبلی کے حلقہ 213 سے بھی الیکشن میں اتر سکتےہیں آپ نے 18 دسمبر، 1987 کو بینظیر بھٹو سے شادی کی اور دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئے۔جناب آصف علی زرداری نے پولو،گھوڑ سواری کا شوق بھی رکھا۔پولو کے کھیل میں گھوڑے سے گر کر زخمی ہونے کے بعد پولو کھیلنا بند کر دیامگر گھوڑے پالنے کا شوق آج بھی ہے۔کڑوڑوں روپے مالیت کے گھوڑے آج بھی انکے فارم ہاوس میں لوگوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں